اردو اخبارات کی صحافتی تاریخ سے میری ابتدائی وابستگی بس اتنی ہی تھی کہ گھر میں بلاناغہ روزنامہ انقلاب منگوایا جاتا اور میری یہ ذمہ داری تھی کہ میں روزانہ اخبار کی جلی سرخیاں پڑھ کر اپنے والد کو سناؤں۔ کوئی خبر اگر ان کی دلچسپی کی ہوتی تو وہ تفصیل سے سننا چاہتے ورنہ بس۔ اب میری دلچسپی فلموں کے اشتہارات کی جانب ہوتی کہ کون سی فلم کس تھیئٹر میں لگی ہے۔ اداکار کون کون ہیں ،شو ٹائم کیا ہیں جو عموماً ۱۲،۶،۳ اور ۹ ہوا کرتے تھے۔
بعد ازاں میں یہ معلومات اپنے دوستوں تک پہنچاتا اور فلم دیکھنے کے لئے وقت نکالا جاتا، وقت کے ساتھ اسکول سے کالج کی جانب کا سفر ، نئے نئے دوستوں کی بڑھتی فہرست کا سبب بنا۔اب اس فہرست میں کچھ ایسے دوستوں کا بھی اضافہ ہوا جو کسی نہ کسی اخبار سے منسلک تھے اور ترجمہ نگاری یا کالم نگاری صبر آزما کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔رفتہ رفتہ مختلف اخبارات کی طرف دلچسپی بڑھتی گئی۔اب انقلاب کے ساتھ ساتھ اردو ٹائمز ، اردو رپورٹر، ہندوستان،قومی آواز وغیرہ بھی مطالعہ میں آنے لگے۔پھر ان اخبارات سے جڑے کچھ صحافی حضرات سے بھی صاحب سلامت ہونے لگی، اخبارِ عالم اور قومی آواز کے خلیل زاہد،مہانگر کے ساجد رشید، رشید اور انیس صدیقی کا اردو رپورٹر ، سرفراز آرزو کا ہندوستان، اردو بلٹز میں خواجہ احمد عباس کا آخری صفحہ، اردو ٹائمز کے ۔۔۔جعفری، انجم رومانی اور عالم نقوی، صحافت کے حسن کمال، انقلاب میں خار انصاری کے اداریے، ارتضیٰ نشاط کی غزلیں اور قطعات، ندیم صدیقی کے ادبی صفحات وغیرہ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سے صحافی حضرات سے غائبانہ تعارف ہوا جیسے محمود ایوبی، جاوید صدیقی،شہریار عابدی اور فضیل جعفری وغیرہ۔ کچھ مشہور اور تجربہ کار صحافیوں کے نام بھی سامنے آنے لگے جن میں جناب عزیز برنی کا نام نامی بھی شامل تھا۔ برنی صاحب کے بارے میں مختلف المزاج لوگوں سے ان کی شخصیت کے تعلق سے بہت سی باتیں سننے میں آئیں۔ اب جبکہ ان کی خود نوشت ہندنامہ چھپ کر آگئی ہے تو ان ہی کی زبانی بہت سی معلومات مطالعہ میں آئیں گی، چونکہ کتاب بہت ہی ضخیم ہے اور اس سے سرسری نہیں گزرا جاسکتا۔لہذا کتاب کو پڑھنے کے لئے اتنی ہی مہلت درکار ہے جتنی اس کتاب کی ضخامت جس کی اجرائی نشست کے پرمسرت موقع پر میں ہدیۂ تہنیت پیش کرتا ہوں۔
کتاب کے صفحہ نمبر۱۱ اور ۱۳ پر اظہار تشکر اور دوستوں اور معاونین کی جو فہرست دی گئی ہے اس میں شامل سیاسی اور سماجی شخصیات کے نام یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ عزیز برنی کسی معمولی شخص کا نام نہیں ہے۔
حکومت ہند کے مختلف شعبوں میں آپ کی شمولیت آپ کی قابلیت اور قابل لحاظ کارکردگی کی واضح مثال ہے، اس سے ایک بات تو مانی جاسکتی ہے کہ موصوف جیسی سیاسی سمجھ بوجھ اور اولوالعزمی بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ مجھ جیسے عام قاری کے لئے برنی صاحب جیسی بردبار شخصیت تک رسائی ناممکن ہوتی اگر آج آپ کی ممبئی میں آمد اور آپ کی خودنوشت ہندنامہ کا اجرائی جشن میں شمولیت کا مجھے موقع نصیب نہ ہوتا جس کے لئے میں ضیاء اللہ خان صاحب، یونیک ایجوکیشنل سوسائٹی اور اردو لٹریری فورم کا شکرگزار ہوں۔
برنی صاحب کی زندگی سیاست کے پرپیچ گلیاروں سے بتدریج گزری ہے،آپ کے مشاہدات میں مسلمانوں کی سیاسی بے بصیرتی ایک اہم کردار ہے۔ہندوستان کے سیاسی داؤ پیچ کے ماحول نے اور قیادت کے فقدان نے مسلمانوں کو صحیح راہ اختیار کرنے میں مدد نہیں کی، مسلمانوں کو دہشت گرد بناکر پیش کیا، مختلف فسادات میں مسلمانوں کو یکطرفہ کاروائی کا شکار بنایا گیا، ایسے سوز دل حالات نے برنی صاحب کو اپنی تمام ترصحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ کھل کر سامنے آنے پر آمادہ کیا جس کا حق آپ نے نفسِ نفیس ادا کیا، ان موضوعات پر مختلف مقامات پر آپ کی تقاریر کے حوالے اس بات کی شہادت دیتے ہیں۔
برنی صاحب کی زندگی کا طویل حصہ سہارا انڈیا پریوار کے ساتھ گزرا ہے۔ اس دور کی بہت سی یادوں کو آپ نے قلمبند کیا ہے جو پڑھنے لائق ہیں۔ ہندی روزنامہ راشٹریہ سہارا سے آپ کی وابستگی اور پھر اردو ماہنامہ میگزین میں شمولیت کے بہت سے نتائج خیز واقعات آپ نے بیان کئے ہیں۔ مختلف نامور سیاسی شخصیات کے ساتھ آپ کے تعلقات کی کھٹی میٹھی داستانیں بھی اس کتاب کا اہم حصہ ہیں۔ برنی صاحب کے سیاست میں آنے نہ آنے کا تفصیلی ذکر بھی ایک اہم موضوع ہے۔
اصلاح معاشرہ برنی صاحب کی زندگی کا اہم مقصد رہا ہے اور اس ضمن میں آپ کی کاوشوں کا تفصیلی اعتراف بہت سے اکابرین نے کیا ہے اور ان کی آراء اس کتاب کی قدروقیمت میں اضافہ اور برنی صاحب کے حوصلوں کی نشاندہی کرتی ہے۔
اس خودنوشت کا ایک اہم باب ’’فلمی دنیا کا ناکام سفر‘‘ بھی فلمی دنیا پر سیاست دانوں اور مافیاؤں کی جکڑبندی کی کہانی سناتا ہے۔ اس باب میں برنی صاحب نے فلمی دنیا کی بہت سی اہم شخصیات سے قریبی روابط کا ذکر کیا ہے۔ ایک بڑے بینر پر ان کی کہانی ’’صدام حسین سفر زندگی کا‘‘ پر بننے والی فلم کے دھیرے دھیرے بلیک آؤٹ ہونے کی کہانی فلمی دنیا کے روز و شب کی تعصبانہ روش کی داستان بیان کرتی ہے جس کے بعد نہ صرف برنی صاحب بلکہ ان کے صاحبزادے علی عزیز خان کو بھی ایک منافع بخش زندگی کو تج کر ممبئی چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو آج ہم ایک کامیاب پروڈیوسر ایک بہترین کہانی نویس اور فلم انڈسٹری کی ایک نامور ہستی کا بھی جشن منارہے ہوتے۔بہرحال
وقت نے کیا، کیا حسین ستم
تم رہے نہ تم، ہم رہے نہ ہم
سامعین کرام! خود نوشت ہندنامہ نہ صرف ایک شخص کی زندگی کی داستان ہے بلکہ ایک اہم دور کی جیتی جاگتی دستاویز ہے۔ خود صاحبِ کتاب کے اعتراف کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیںـ
’’ہندنامہ خودنوشت‘‘ داستان حیات یا میری زندگی کا سفرنامہ، میری زیر نظر کتاب کا جو بھی نام دیا جائے، لیکن یہ میری زندگی کی داستان سے کہیں زیادہ آج کے ہندوستان ہے۔ آزادی کے بعد کے ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات کی داستان ہے۔یہ ایک ایسا تاریخی دستاویز ہے جو ریسرچ اسکالرز کی توجہ کا مرکز رہے گا اور میری دلی خواہش بھی یہی ہوگی کہ وہ اس کتاب کے مختلف گوشوں کو اپنی تحقیق کا موضوع بنائیں۔‘‘اور غالبا اسی خواہش کے زیر اثر موصوف نے کتاب کا انتساب بھی ریسرچ اسکالرز اور آنے والی نسلوں کے نام کیا ہے۔
اس کتاب میں موضوعات کے ہمہ جہت پہلو، بہت سے اعترافات اور انکشافات نہ صرف چونکا دینے والے بلکہ حیرت افزا بھی ہیں۔ اگر وقت ملا تو میں اس کتاب کی تفصیل سے پڑھنے کا خواہش مند ہوں، فی الحال تو میں نے اپنے مضمون کو سرسری مطالعہ تک محدود رکھا ہے۔
چلتے چلتے کتاب میں شامل بیکل اتساہی کی توصیفی نظم کے ان اشعار پر اپنی بات تمام کرتا ہوں۔
فراخ دل نازشِ صحافت عزیز برنی عزیز برنی
زبانِ اردو کا عزمِ رفعت عزیز برنی عزیز برنی
قلم کا اک منفرد سپاہی، نڈر اصولِ سفر کا راہی
سجائے دل میں وطن کی عظمت عزیز برنی عزیز برنی
چلے تو احساس میں ہو ہلچل، رکے تو ہر اک طلب ہو بیکل
عظیم خصلت، بلند قامت عزیز برنی عزیز برنی
No Comments: